Look Inside

Baraf ki Aurat برف کی عورت

شاہین کاظمی نے ان افسانوں میں اپنے تخلیقی وفور اور فنی مہارت سے نسوانی محسوسات اور مسائل کو اس طرح اجالا ہے کہ صنفی امتیاز کاشائبہ تک نہیں ہوتا اورمسائل خالص انسانی سطح پہ ظہور کرتے ہوئے قاری کے ضمیر کو مخاطب کرتے ہیں۔ مصنفہ نے صنفی تقسیم سے ماورا ہو کر نسوانی جذبات کو اتنی خوبصورتی سے زبان دی ہےکہ قاری دوران مطالعہ اپنی عورت یا مرد کی حیثیت بھو ل کرکہانی کے ساتھ بہنے لگتا ہے

 450.00

الہام کی رتوں میں الفاظ کی آبیاری ہو تو ہئیت و اسلوب اس کا منہ بولتا آئینہ دکھائی دیتے ہیں۔ کردار تراشنے کے لیےکسی تیشے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ خود بخود انتہائی نامحسوس طریقے سے عدم سے وجود کی سمت سفر کرتے اور اپنے خالق کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ میرا ایمان ہے الفاظ کبھی نہیں مرتے بشرطیکہ ان کا خالق ظاہری اور باطنی طور پر نہ صرف زندہ ہو بلکہ عصر رواں کی پکار پر کان دھرنے والا بھی ہو۔
شاہین کاظمی کا افسانوی مجموعہ “برف کی عورت” ایک ایسا ہی جان گداز مکاشفہ ہے۔ ایک ایسی واردات، ایک ایسا الہامیہ ہے جو نہ صرف اپنے خالق کے ہنرکی گواہی دیتا ہے بلکہ اس کی بقا کا ضامن بھی ٹھہرتا ہے۔ یہ الہامیہ نہایت خاموشی سے اندر سیندھ لگا کر حیرتوں کا ایک نیا در کھولتا ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی حیرت سرا ہے جہاں قدم قدم پر طلسم کدے ہیں۔ کہیں اسلوب کا طلسمِ ہوشربا ہے، کہیں کرداروں کا تحیّر کدہ ہے، کہیں کہانی کی الف لیلوی فضا ہے اور کہیں بُنت کے نظر نہ آنے والے ریشمی دھاگوں نے قاری کو جکڑ رکھا ہے۔
سلمان باسط

میں نے شاہین کاظمی کو ایک نئی لکھنے والی جان کر، ان کی کہانیوں کا مسودہ ایک طرف رَکھ دیا تھا مگر اَب جو اِنہیں اچانک اور بے اِرداہ پڑھ لیا تو لگتا ہے یہ میرے لہو میں اور میری نَس نَس میں اُتر گئی ہیں۔ اِن افسانوں میں محض ماجرا ہی اہم نہیں ہے، جس قرینے سے واقعات کو تاثیر کے پانیوں سے گندھے بیانیے میں ڈھالا گیا ہے وہ بھی لائق توجہ ہوگیا ہے۔ اور لطف یہ کہ شاہین کاظمی کسی ایک منظر نامے اور کسی ایک زمانے کی قاش کو نہیں اٹھاتیں یا فقط اپنے ہی آس پاس کی زندگی کی اسیر نہیں رہتیں وہ اِن دائروں کو توڑتی ہیں اور زندگی کے تنوع کو لکھتے ہوئے اپنے قلم کی توفیقات بڑھالیتی ہیں۔ خیر، ان افسانوں کا یہ تنوع زمینوں، زمانوں اور ان میں رَچے بسے کرداروں کے حوالے سے ہی ہے۔ کہیں گہرے حزن کے ساتھ اور کہیں اپنے اندر تیز اور تیکھے معنیاتی اِسراع کو ممکن بناتے ہوئے، ہماری اس افسانہ نگار نے رواںدواں فکشن کے خالص بیانیے میں تاثیر کاعجب جادو رکھنے کا ہنر وتیرا کیا ہوا ہے۔ عین آغاز ہی میںجس کے قلم پر عطا کا یہ عالم ہو، کامیابی اس کا مقدر ہو جایا کرتی ہے۔
محمد حمید شاہد

شاہین کاظمی نے ان افسانوں میں اپنے تخلیقی وفور اور فنی مہارت سے نسوانی محسوسات اور مسائل کو اس طرح اجالا ہے کہ صنفی امتیاز کاشائبہ تک نہیں ہوتا اورمسائل خالص انسانی سطح پہ ظہور کرتے ہوئے قاری کے ضمیر کو مخاطب کرتے ہیں۔ مصنفہ نے صنفی تقسیم سے ماورا ہو کر نسوانی جذبات کو اتنی خوبصورتی سے زبان دی ہےکہ قاری دوران مطالعہ اپنی عورت یا مرد کی حیثیت بھو ل کرکہانی کے ساتھ بہنے لگتا ہے اور افسانے کے کردار وں کی زندگی جینے لگتا ہے۔ یہی مصنفہ کے فن کی معراج اور تخلیقی اپج کا حاصل ہے۔اپنے وطن اور لوگوں سے دور رہ کر انکے بارے میں اس شدت اور گہرائی سے محسوس کرنا شاید ترک وطن کا وہ حاصل ہے جس سے حظ اندوزی اہل وطن کےحصہ میں آتی ہے۔
بصری فکشن کے اس دور میںکتاب کے صفحہ سے اپنے ذاتی تخیل تک سفر کرنا اس صنف کا وہ مقصود ہے جس سے آج کا انسان تیزی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ اس دور میں کہ جب اردو دنیا میں کتاب سے تعلق “کتابی” سا ہو چلا ہے، اپنے ماحول سے ماخوذ اور معاشرہ سے جڑی ایسی کہانیاں قاری کو کتاب سے جوڑنے میں معاون ہوں گی۔
شاہد اعوان

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Baraf ki Aurat برف کی عورت”

Your email address will not be published. Required fields are marked *