Look Inside

Ghurbat aur Ghulami غربت اور غلامی:خاتمہ کیسے ہو؟

اگر آپ کسی بھی قسم کی مذہبی ،علاقائی یا فکری عصبیت سے بالاتر ہو کر سیاسیات اور اقتصادیات کے طالبعلم کی حیثیت سے حقائق کی گتھیاں سلجھانا چاہتے ہیں اور معاشرے کے بنیادی مسائل کا اِدراک چاہتے ہیں تو اس کتاب کو ضرور پڑھیں اور تمام سوالات پر کھلے دل و دماغ کے ساتھ غور کریں۔

اس کتاب میں نہ صرف معیشت کے بنیادی تصورات کو سلیس انداز میں بیان کیا گیا ہے بلکہ انسانی معاشرے کی پیچیدگیوں کو بھی سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل ازم کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ دونوں موضوعات پوری کتاب پر حاوی رہتے ہیں تاہم ان کا تقابل فاشزم اور سوشل ازم جیسے مختلف تصورات سے بھی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے موضوعات کا تنوع قائم اور دلچسپی برقرار رہتی ہے۔

 680.00

وجاہت مسعود : مصنف ،دانشور ، کالم نگار (روزنامہ جنگ )

ذیشان ہاشم  کی تحریروں کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ ذیشان ہاشم انصاف اور آزادی کے دو زاویوں کو متوازن کرنے کی مسلسل جدوجہد میں ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ ذیشان ہاشم اپنی بے پناہ ذہانت ، فکری توانائی ، ذہنی دیانت داری اور قابل رشک احساس ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ عالمی سطح پر علمی مکالمے میں تخلیقی کردار ادا کریں گے بلکہ انکسار سے پیش گوئی کرتا ہوں کہ ذیشان ہاشم کا قلم اردو زبان کے پڑھنے اور لکھنے والوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہو گا۔

پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی : سابق چیئرمین فلسفہ ڈیپارٹمنٹ ، پنجاب یونیورسٹی لاہور –

ذیشان ہاشم نوجوان ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس عمر میں کلاسکیل لبرل ازم کے فلسفے کے قائل ہیں۔ ہماری جوانی کے دنوں میں تو انقلابی ہونے کا رواج ہوتا تھا۔ فاضل مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ ان فلسفیانہ افکار کی عام فہم پیرائے میں ترسیل پر ہی قدرت نہیں رکھتے بلکہ انہیں استدلال سے مزین کرنے کی صلاحیت سے بھی بہرہ مند ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس کتاب میں جن افکار کو پیش کیا گیا ہے ان کی آج مسلم سماج کو شدید ضرورت ہے۔

محمد بلال غوری – دانشور ، مصنف ، کالم نگار (روزنامہ جنگ )

میرا خیال تھا کہ یہ کتاب غیر سیاسی اور خشک موضوعات پر مشتمل ہو گی اور اسے پڑھنا دشوار ہو جائے گا مگر جب کتاب دیکھنا شروع کی تو غیر متوقع طور پرپہلی ہی نشست میں پوری پڑھ ڈالی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مشکل ترین موضوعات کو سہل اور آسان فہم انداز اور سلیس زبان میں بیان کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر ایک جگہ عمل فرسودگی (Depreciation) کا مفہوم اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ اقتصادیات سے قطعاً نابلد شخص کو بھی سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ایک اور جگہ مصنف نے اس اہم ترین نکتے کو اجاگر کیا ہے کہ جب تک شخصی یا انفرادی مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاتا ،اس وقت تک کوئی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا خواہ جمہوریت ہو ،سیکولراِزم ،فری مارکیٹ ،سرمایہ دارانہ نظام یا کوئی بھی اور اِزم۔لیکن ہمارے ہاں اسلام کے ٹھیکیدار ہوں یا جمہوریت کے اجارہ دار ،سب ہی اس باریک نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مشترکہ مفادات ہی اتحاد و اتفاق کی بنیاد بنتے ہیں ۔جب تک لوگوں کے معاشی مسائل حل نہیں کیئے جاتے ،ان کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں کی جاتیں ،محض اخلاقیات کے ڈنڈے سے معاشرے کو کا ہانکا نہیں جا سکتا۔ اس کتاب میں کئی حساس اور ناگفتنی موضوعات کو چھیڑا گیا ہے اور اس سے پہلے مصنف نے امریکی شاعر اور فلاسفر ہنری ڈیوڈ تھورایو کا یہ قول نقل کرنا بھی ضروری سمجھا کہ ’’خیر کے شر سے بڑھ کر بری مہک کسی چیز کی نہیں ہو سکتی ،اگر مجھے علم ہو جائے کہ کوئی شخص جذبہ خیر سے میرے گھر کی جانب آرہا ہے تو میں اس سے بچنے کے لیئے سرپٹ دوڑ لگا دوں گا‘‘شاید مصنف کا اشارہ خیر کے ان علم برداروں کی طرف ہے جو چراغِ مصطفوی ﷺ لیکر شرار بولہبی کی صورت آگ لگاتے پھرتے ہیں۔عصر حاضر کے معاشی نظام میں سود کے بغیر لین دین کا تصور نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بنکاری نظام سود کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ہمارے ہاں سود کو لعنت سمجھا جاتا ہے مگر مصنف نے عقلی دلائل کی روشنی میں چند سوالات اٹھائے ہیں جو بہت اہم ہیں ۔مثال کے طور پر مصنف نے لکھا ہے ’’میرے نانا جان نے آج سے تقریباً چالیس سال قبل اپنے ایک رشتہ دار حاجی محمدکو ’’کلر‘‘ (سرائیکی زبان کا لفظ ،معانی گوبر کی کھاد) بیچا جو کل ساٹھ بورے تھے جن کی مالیت اس وقت تقریباً نوے روپے بنی۔حاجی محمد ادائیگی نہ کرسکے۔آخر کار میرے نانا جان نے پیسے مانگنا چھوڑ دیئے ۔چالیس سال بعد میرے ماموں اور حاجی محمد کے بیٹے میں لین دین کا تنازعہ ہوا تو میرے نانا نے غصے میں آکر کہ دیا کہ پہلے تم سابقہ پیسے دو۔حاجی محمد نے نوے روپے نکالے اور میز پر رکھ دیئے۔میرے نانا حیران رہ گئے اور انہوں نے کہا مجھے میری گوبر کی کھاد کے پیسے موجودہ مارکیٹ پرائس(قیمت) کے حساب سے چاہئیں ۔حاجی محمد نے ان پر سود خوری کا الزام لگا دیا اور معاملہ مزید الجھ گیا۔اب آپ بتائیں ،انصاف نوے روپے لینے میں ہے یا موجودہ مارکیٹ پرائس وصول کرنے میں؟ اس واقعہ میں استحصال کیا ہے اور کون کر رہا ہے؟‘‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی قسم کی مذہبی ،علاقائی یا فکری عصبیت سے بالاتر ہو کر سیاسیات اور اقتصادیات کے طالبعلم کی حیثیت سے حقائق کی گتھیاں سلجھانا چاہتے ہیں اور معاشرے کے بنیادی مسائل کا اِدراک چاہتے ہیں تو اس کتاب کو ضرور پڑھیں اور تمام سوالات پر کھلے دل و دماغ کے ساتھ غور کریں۔

سلمان عابد : مصنف ، دانشور ، کالم نگار 

ذیشان ہاشم کا فکری زوایہ

نوجوان لکھاری ، دانشور اور فکری محاذ پر سرگرم ذیشان ہاشم بنیادی طور پر سوچ وفکر کا آدمی ہے ۔ وہ ایک ایسے سماج کی تلاش میں سرگرداں ہے جو ایک مہذہب اور منصفانہ معاشرے کا درجہ رکھتا ہو۔ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ایک طقباتی معاشرہ کیا ہوتا ہے اور اس کا اثر معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات پر کس بے دردی سے استحصال کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ یہ ہی وجہ کہ ذیشان ہاشم نے قلم اور الفاظ کی مدد سے اپنے آپ کو فکری جدوجہد کے سپاہی کے طور پر پیش کیا ہے ۔

ہمارے ہاں نوجوان لکھنے والوں کی بڑی بہتات ہے ۔ سب ہی لکھنا چاہتے ہیں اورلکھ کر بڑا آدمی بننے کی خواہش بھی رکھتے ہیں ۔لیکن المیہ سب سے بڑا مطالعہ کی کمی کا ہے ۔ ہم پڑھے  بغیر بڑا آدمی یا لکھاری بننا چاہتے ہیں، جو کسی بھی طور پر ممکن نہیں ۔لیکن ذیشان ہاشم نئی نسل میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو شوق مطالعہ رکھتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ جذباتی انداز اختیار کرنے کی بجائے دلیل کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں ۔بلاوجہ کی محازآرائی میں الجھنے کی بجائے مسئلہ کا حل اور تنقید کو بھی اصلاح یا حالات کی بہتری کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

وہ سیاسی طور پر متعصب نہیں اور ہر فکر کے لوگوں کے خیالات کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اپنی ایک خاص رائے رکھتے ہیں ،لیکن کسی پر بلاوجہ اپنی رائے ٹھونسے کی بجائے مکالمہ کو آگے بڑھانے کے حامی ہیں ۔بہت کم عرصہ میں انہوں نے اپنی تحریروں سے پڑھنے والوں کومتاثر کیا ہے ۔ میں خود ان کی تحریروں کا مداح ہوں اور بہت سے امور پر ان کی تحریروں سے راہنمائی بھی لیتا ہوں۔وہ سیاسی اور معاشی پہلووں سمیت عالمی سماجی اور معاشی امو رپر ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ معاشی امور پر بات کرتے وقت ان کے پیش نظر عام آدمی ہوتا ہے جو ان کی اہم خوبی ہے ۔سماجی انصاف کو وہ بنیادی کنجی سمجھتے ہیں او ران کے بقول سماجی و معاشی انصاف کے بغیر معاشرہ برابری کی بنیاد پر نہیں پنپ سکتا ۔

ان کی کتاب غربت اور غلامی : خاتمہ کیسے ہو ؟ اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ صرف مضامین ہی نہیں بلکہ تحقیق پر مبنی مواد ہے جس میں مختلف مفکرین کے حوالہ جات بھی شامل ہیں جو ذیشان ہاشم کے مقدمہ کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔ ان کی تحریریں واقعی پڑھنے کے قابل ہیں ، کاش ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والے پالیسی ساز اور حکمرن سمیت ریاستی طبقہ اہل دانش کی فکری اساس سے فائدہ اٹھا کر معاشرے کی تعمیر میں آگے بڑھیں ۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ریاست اور حکمران طبقات میں طاقت ور طبقہ اپنی سوچ وفکر میں بانجھ پن کا شکار ہے ۔ اس کے سامنے ریاست اور معاشرہ اہم نہیں بلکہ ذاتی مفاد اہم ہے ۔ یہ ہی ذیشان ہاشم جیسے دانشور لکھاریوں کا المیہ ہے ، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ مایوس نہیں بلکہ اپنی جنگ لڑرہا ہے اور دوسروں کو بھی اس فکری تحریک میں حصہ دار بنانے میں پیش پیش ہے ۔میں اس کی فکری کاوشوں پر اسے مبارکباد دیتا ہوں۔

پروفیسر ڈاکٹر قاضی عبدالرحمان عابد – بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان

یہ کتاب بنیادی طور پر معاشیات، فلسفے اور بشریات کے علوم کا ایک ایسا امتزاج ہے جو انسانی صورتحال کو سمجھنے اور اسے بہتر بنانے میں معاونت کرتا ہے۔ہر زمانے کی طرح یہ زمانہ بھی ریاستی اور سرکاری گماشتوں کی فوکو کے لفظوں میں تشکیل شدہ ذہانت (درست لفظ ذہنیت) کا اتباع کرنے والا ہے۔ ایسے میں ذیشان جیسے لوگوں کے لفظ جو متبادل بیانیہ تشکیل دیتے ہیں، اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر ہر یقین کو شک کی پہلی نظر ہی توڑتی ہے۔ یہ کتاب یقینا کئی سماجی تشکیلات کی شکست کا سبب بنے گی۔

ڈاکٹر محمد ناصر – پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس

میں گزشتہ چار سال سے ذیشان ہاشم سے بار بار عرض کرتا رہا ہوں کہ جدید معاشی فلسفہ پر ایک کتاب لکھیں جو نہ صرف اردو میں ہو بلکہ فلسفہ تاریخ اور سوشل سائنس کے تمام میدانوں کا احاطہ کرے – کیونکہ یہ وہ کام ہے جو میں سمجھتا ہوں پاکستان میں صرف ذیشان ہاشم کر سکتا تھا جو اس نے کمال خوبصورتی سے کیا ہے – یہ کتاب پڑھ کر مجھے یوں لگا جو میری آرزو تھی وہ سب اسی میں ہے – انشاءاللہ یہ کتاب پاکستان کے معیشت و سیاست اور معاشرت کے طلباء میں خوب پذیرائی پائے گی اور پاکستانی دانشورانہ مکالمہ میں تاریخ ساز کردار ادا کرے گی –

ارشد محمود : مصنف ، دانشور

تاریخ کا مطالعہ کریں، تومحسوس ہوتا ہے، جتنے بھی مشاہیر آرٹ، لٹریچر، فلسفے اورسائنس میں اپنے اپنے وقت میں پیدا ہوئے وہ اپنے مخصوص زمان و مکان کی ضرورت تھے۔ ایسے دانش ور اپنے وقت کے فکری جمود، الجھاو اور ابہام کو دورکرتے ہیں۔ جس سے ارتقا و ترقی کا عمل آگے بڑھ کر معاشرے کو روح عصر سے ہم کنارکرتا ہے۔ مجھے ذیشان کا ‘ظہور’ کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ پاکستان کا فکری المیہ یہ ہے، یہاں نوع بہ نوع افکار ایک دوسرے میں الجھے ہوئے ہیں۔پرانا بھی ٹھیک ہے، نیا بھی ٹھیک ہے۔ مذہب بھی صحیح ہے، سائنس بھی قبول ہے۔ یعنی clarity in thoughts نہیں ہے۔ آزاد منڈی اورسوشلسٹ منصوبہ بند غیر ملکیتی معیشت کا الگ سا الجھاو ہے۔ جس کسی کا ہاتھ ہاتھی کے جس حصے سے مس ہوتا ہے، اس کا اصرار ہے، ہاتھی ایسا ہی ہے۔ آج ترقی یافتہ دنیا کن افکار کے تحت جدید دنیا بسا رہی ہے، اس کے بارے میں بھی بہت کم علم ہے۔ ایسے حالات میں ذیشان خیالات، نظریات، افکار کی صفائی ستھرائی کا کام خوب کررہا ہے۔ وہ ترقی سے متعلقہ ایک ایک سماجی، معاشی، اخلاقی مسئلے کو لیتا ہے۔ اور صاف ستھرے انداز سے ابہام کی الائش اتارتا جاتا ہے۔ چنانچہ ذیشان کی زیر نظر کتاب پاکستان میں ایک زبردست علمی کردار ادا کرے گی، جس سے ہمارے ہاں کی فکری پس ماندگی ، لاعلمی اور ادھوری علمی حالت کا خاتمہ ہوگا۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Ghurbat aur Ghulami غربت اور غلامی:خاتمہ کیسے ہو؟”

Your email address will not be published. Required fields are marked *