Look Inside

Mata e Shaam e Safar متاع شام سفر

Autobiography خودنوشت سوانح


کتنی تصویروں کے ساتھ آئی ہے شامِ زندگی
وقت جب کم رہ گیا تو کام یاد آئے بہت

ضمیر جعفری کو توغالباً ایسے کام یاد آ گئے ہوںگے، جو کرنے کے تھے مگر ابھی تک کر نہ سکے ہوں۔ میرے پاس کچھ بھی تو کرنے کے لیے نہیں تھامیں پریشان کیوں ہوتا؟ ایسے میں شامِ زندگی صرف ماضی میں ہی جھانکنے کا حوصلہ دلاسکتی ہے۔ ماضی کے لمحات، زندگی کے قیمتی لمحات کی ایسی تصویریں جو سرعت کے ساتھ وقت کے دھندلکوں میں غائب ہوگئی تھیں، یقین نہیں آتااس طرح آ موجود ہوں گی۔یہ ماہ و سال پھسل کر کدھر کو نکل گئے تھے؟ مُٹھی میں بند ریت کے ذرات کی طرح۔ آہستہ آہستہ اور غیر محسوس، خاموش اور دبے پائوں ماضی کی اتھاہ گہرائیوں میں ایسی جگہ جہاںشعور کی روشنی کا کوئی گزر نہیں۔ماضی میں جانے کے لیے جہاں دل میں بے پناہ خواہشیںمچل رہی ہوتی ہیں، وہاںکتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ ماضی پیارا ہوتا ہے، اپنا ماضی۔ یہ یادوں کی وہ صلیب ہے جو انسان کو کسی حالت میں نہیں چھوڑتی۔اس کے دُکھ، اس کے سُکھ، تکلیف اور آرام،اس کی ہر شے اپنی اور اپنی چیز کسے پیاری نہیں ہوتی۔شاہ ہو یا گدا، غریب ہو یا امیر، سب ماضی کے اسیر۔ماضی ہی وقت کی سب سے بڑی حقیقت۔ مستقبل تو کسی نے دیکھا نہیں۔اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ اس کا ہر لمحہ تیزی سے ماضی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ حال ہے کہاں؟ کیا ہم ایک سیکنڈ کو حال کہیں گے؟ سیکنڈ کے دسویں حصے کو یا اس کے کروڑویں حصے کو؟ ہم تو مستقبل کو ماضی بنتے اورحال کو بے حال ہوتے ایک تماشائی کی طرح اس منظرنامے کو تکتے رہتے ہیں۔ کچھ بھی باقی نہیں سوائے ماضی کے اور اچانک کسی وقت ہم سب اسی ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ رہے نام اللہ کا۔

مصنف

 800.00

کتنی تصویروں کے ساتھ آئی ہے شامِ زندگی
وقت جب کم رہ گیا تو کام یاد آئے بہت

ضمیر جعفری کو توغالباً ایسے کام یاد آ گئے ہوںگے، جو کرنے کے تھے مگر ابھی تک کر نہ سکے ہوں۔ میرے پاس کچھ بھی تو کرنے کے لیے نہیں تھامیں پریشان کیوں ہوتا؟ ایسے میں شامِ زندگی صرف ماضی میں ہی جھانکنے کا حوصلہ دلاسکتی ہے۔ ماضی کے لمحات، زندگی کے قیمتی لمحات کی ایسی تصویریں جو سرعت کے ساتھ وقت کے دھندلکوں میں غائب ہوگئی تھیں، یقین نہیں آتااس طرح آ موجود ہوں گی۔یہ ماہ و سال پھسل کر کدھر کو نکل گئے تھے؟ مُٹھی میں بند ریت کے ذرات کی طرح۔ آہستہ آہستہ اور غیر محسوس، خاموش اور دبے پائوں ماضی کی اتھاہ گہرائیوں میں ایسی جگہ جہاںشعور کی روشنی کا کوئی گزر نہیں۔ماضی میں جانے کے لیے جہاں دل میں بے پناہ خواہشیںمچل رہی ہوتی ہیں، وہاںکتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ ماضی پیارا ہوتا ہے، اپنا ماضی۔ یہ یادوں کی وہ صلیب ہے جو انسان کو کسی حالت میں نہیں چھوڑتی۔اس کے دُکھ، اس کے سُکھ، تکلیف اور آرام،اس کی ہر شے اپنی اور اپنی چیز کسے پیاری نہیں ہوتی۔شاہ ہو یا گدا، غریب ہو یا امیر، سب ماضی کے اسیر۔ماضی ہی وقت کی سب سے بڑی حقیقت۔ مستقبل تو کسی نے دیکھا نہیں۔اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ اس کا ہر لمحہ تیزی سے ماضی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ حال ہے کہاں؟ کیا ہم ایک سیکنڈ کو حال کہیں گے؟ سیکنڈ کے دسویں حصے کو یا اس کے کروڑویں حصے کو؟ ہم تو مستقبل کو ماضی بنتے اورحال کو بے حال ہوتے ایک تماشائی کی طرح اس منظرنامے کو تکتے رہتے ہیں۔ کچھ بھی باقی نہیں سوائے ماضی کے اور اچانک کسی وقت ہم سب اسی ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ رہے نام اللہ کا۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حال کتنا ہی بے حال کیوں نہ ہو، ہم اس سے فرار حاصل کر سکتے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ اگر ماضی ہمیں حال میں رہنے کا حوصلہ عطاکرسکے، اس کے گر سکھا سکے اور ہم کچھ سبق سیکھ سکیں تو کامیابی ہی کامیابی ہے ورنہ ناکامی اپنا مقدر۔ ایک ماں نے بیٹے سے پوچھا:’ بیٹا سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھا؟‘ ’پتا نہیں!‘ بیٹے نے جواب دیا۔ ماں بولی: ’ بیٹا! اپنی کتابوں پر دھیان دیا کرو۔۔۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی میں ہمارے اسلاف کون اور کیسے تھے‘۔ ’ممی!‘ لڑکے نے ترکی بہ ترکی سوال کیا، ’آپ کو معلوم ہے کہ پِنکی آنٹی کون ہیں؟‘ ’نہیں۔۔۔مگر اس سوال کی کیا تُک ہے؟‘ ماں نے حیران ہو کر پوچھا۔ لڑکا بولا: ’ممی! ہمیں ماضی کے بجائے حال میں رہنا چاہیے۔۔۔۔پِنکی آنٹی سامنے فلیٹ میں رہتی ہیں اور وہ بہت خوبصورت اور ہنس مکھ ہیں۔ڈیڈی کی ان سے بڑی دوستی ہے۔ میں تو اسلاف کے بغیر رہ لوں گا، مگر آپ؟ آپ کو ماضی کی بجائے حال اور ڈیڈی پر دھیان دینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ۔۔۔۔۔‘ لہذا ہماری کوشش ہوگی کہ ہمارے حال پرہمارے ماضی کا غلبہ تناسب سے زیادہ نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا توکوئی ’پنکی آنٹی‘ سب کچھ لے اڑے گی !

خود نوشت کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ اس میں سچ دوسروں کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے مارک ٹوئن نے انیسویں صدی کی ابتدا میں اپنی خود نوشت لکھی لیکن کہا کہ اسے ایک صدی کے بعد شائع کیا جائے تا کہ وہ سارے لوگ مر چکے ہوں جن کے بارے میں سچ بولا گیا ہے!یقین جانیے ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ ہم نے دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں بھی سچ ہی لکھا ہے۔ احتیاط البتہ یہ ضرور برتی ہے کہ اپنے اور دوسروں کے وہی سچ بیان ہوں جو فسادِ خلق کا باعث نہ ہوں۔ سارے سچ اپنے ہی پاس رہنے دیںتو اچھا۔ لہذا بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ہم سے وہی سچ نا گفتہ رہ گئے ہیں جو ہر لحاظ سے ناگفتنی تھے! آخر اپنا بھرم بھی تو قائم رکھنا ہوتا ہے نا۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے تقریر میں یا تحریر میں ’ہم‘ کا لفظ استعمال کرنا ایک غیر اخلاقی اورگھٹیا حرکت ہے؛(چنانچہ) ایک بادشاہ ہی یہ حرکت کر سکتا ہے! اس کا یہ مطلب نہیں کہ بادشاہ کی یہ حرکت بھی کمینی ہے، بلکہ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ لوگ تو ہوتے ہی بادشاہ ہیں،اس لیے ان کے لیے سب روا ہے مگران کی نقالی کر کے دوسرے خواہ مخواہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں اس لیے یہ معیوب ہے۔ ان کے نزدیک تحریر میں ضمیر متکلم واحد یعنی ’میں‘ کا استعمال ہی درست ہے لیکن دوسرے گروپ کا خیال ہے کہ ’میں‘ کا استعمال معیوب ہے، یہ غرور کی نشانی ہے اور مشہور ہے کہ ’میں کے گلے میں چھری ‘۔ حاشا! ہمارا تعلق فرقہِ ملامتیہ سے ہرگز نہیں لیکن دونوں گروپس کو ناراض کرنے کے لیے شعوری طور پرہم نے دونوں طرح کی تراکیب استعمال کی ہیں۔خوش تو کوئی نہیں ہوگا، امید واثق یہی ہے دونوں گروپس لعن طعن ہی کریں گے، فھوالمطلوب، الحمد للہ!

قطع نظرہماری نیت کے یہ عرض کرتے چلیں کہ اہلِ زبان کے ہاں ایک ہی تحریر بلکہ ایک ہی صفحے میں آگے پیچھے ’میں ‘ اور ’ہم‘ کا استعمال جائز بلکہ اَوْلیٰ ہے۔ ’’پطرس کے مضامین ‘‘میں ہوسٹل والے مضمون میں ہی دیکھیں کہ دو تین صفحات میں کس طرح ’میں‘ اور ’ہم‘ ساتھ ساتھ استعمال ہوئے ہیں:

’’۔۔۔ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ ہم نے دل سے کہا والدین کی نافرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں‘‘ (ص ۴۴) ۔اگلی ہی سطر میں لکھتے ہیں: ’’چنانچہ گرمیوں کی تعطیلات میں، مَیں وطن کو واپس گیا‘ ‘(ص۴۴) ۔ چند سطروں کے بعد پھرلکھتے ہیں:’’ انہی ناکام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آکر سجدہ کیا۔‘‘(۴۵) ۔اگلے ہی صفحے میں لکھا :’ ’میں تو خدا سے یہی چاہتا تھاکہ۔۔‘‘۔(ص۴۶)۔ اور یہ کہ:’ ’میں پہلے سال بی،اے میں کیوں فیل ہوا،اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔‘‘ (ص۴۸) اس کے فوراً بعد لکھا کہ:’ ’اب جب ہم بی،اے میں داخل ہوئے توہم نے سوچا۔۔۔۔‘‘(ص۴۹) ۔ وغیرہ وغیرہ۔یہ اقتباسات اپنے لیے جواز فراہم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے سامنے لائے گئے ہیں کہ ہمارے ساتھ تھوڑا سا پطرس کو بھی رگڑ کراُس کی روح کو ایصال ثواب کر لیں تاکہ ہماری روح کو چین اور قرار نصیب ہوسکے!

ہم نے یہ مقدمہ خود اپنے خلاف اپنی ہی عدالت میں دائر کیا ہے۔ہمیں کوزہ گرو کوزہ خر و کوزہ فروش ۔ مدعی ، مدعی علیہ اور منصف ہم ہی بقلم خود، بلکہ بہ کمپیوٹر خود، لہذا فیصلے کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں۔ نہیں ،شاید یہsweeping statement اتنا درست نہ ہو۔مقدمے کے ایک حصے کے خلاف اپیل تو کیااسے مکمل طور پرمستردکیا جا سکتا ہے۔ یہ حصہ واقعات کی تفہیم و تعبیر اور ذاتی علم و فہم سے تعلق رکھتا ہے۔ رہا دوسرا حصہ، توجاننا چاہیے کہ حقائق و واقعات کسی کے فہم وفراست کے تابع نہیں ہوتے۔ ہم کیا اور ہمارا ماضی کیا۔ اختصار کی طرف آئیں تو یہی کہ دنیا میں آئے ،کھایا ،پیا اور مر گئے۔ فراقؔ نے مجنوں کی داستان یو ں سنائی تھی کہ:

؎ ایک تھا مجنوں، عاشقِ لیلیٰ، ویرانے میں موت ہوئی اور اگر تفصیل سے پوچھو، یہ قصہ طولانی ہے۔

البتہ دل میں ایک خیال سا ابھرتا ہے کہ اپنے بارے میں کچھ تفصیل و اِطناب کی طرف جائیں تو یار لوگ شاید اسے غلوسمجھیں اور اختصار واِیجاز کی طرف آئیں تو’ کچھ اور ‘سمجھناشروع کر دیں جو یقینا ہمیں گوارا نہیں۔ ایک صاحب اپنی گفتگو میں، دوسروں سے خط وکتابت میں خود کو حقیر و پُر تقصیر کہنے کے عادی تھے۔ لوگوں نے ان کو یہی سمجھنا اور کہنا شروع کردیا کہ دیکھو وہ حقیر جا رہا ہے! اس لیے یہ تو کسی طور مناسب نہ تھا کہ غیر ضروری اختصار اختیار کر کے خود کو حقیر ثابت کریں، اس بارے میں کوئی ہمیں مورود الزام نہ ٹھہرائے۔

شیکسپیرنے اپنے ڈرامے جولیس سیزر کے تیسرے ایکٹ کے تیسرے منظر میںخاکہ کھینچا ہے : بغاوت کے دوران میں سیزر کے ساتھی سینا کو پکڑ لیا گیا۔ مگر وہ حقیقت میں سینا نامی مشہور شاعر تھا۔ اس نے احتجاج کیا کہ وہ شاعر ہے۔ باغیوں نے کہا ٹھیک ہے پھر اسے بری شاعری کے جرم میں لٹکا دو۔سو صاحبو! ہمیںبھی بری نثر لکھنے کے جرم میں تو یقینا لٹکایا جا سکتا ہے کہ ہم اس کے اقراری مجرم ہیں، مگراس لیے نہیں کہ ہم نے اختیارو ایجاز کا راستہ چن کر کسرِ نفسی سے کام کیوں نہیں لیا۔

اچھی نثر لکھنے کی خواہش میں شروع شروع ہم نے کوشش کی کہ اہلِ علم و دانش، سے اصلاح لی جائے اور مشورہ کیا جائے کہ ہماری یہ ادنیٰ (یا اعلیٰ )سی کاوش قابلِ اشاعت ہے بھی یا نہیں۔ ہمارے ناشر صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ ’ناقابلِ اصلاح ‘ ہیں ، اس لئے اس کو ایسے ہی جاری رکھیں آگے اللہ مالک ہے مگر ہمیں ایک خدشہ لاحق تھا۔ ایک مقدمے میں گواہوں کے بیانات سننے کے بعد جج نے ملزم کے وکیل سے کہا کہ کیس تمہارے موکل کے خلاف جا رہا ہے۔ تم چاہو تو ملزم کو مزید کارروائی سے قبل اس کو الگ لے جا کر مناسب مشورہ دے سکتے ہو۔یہ سن کر وکیل ملزم کو الگ جگہ لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد وکیل اکیلے واپس آیا تو جج نے پوچھا ملزم کہاں ہے؟ وکیل نے جواب دیا جناب وہ تو بھاگ گیا،میں نے اسے یہی مشورہ دیا تھا۔ ہمیں خدشہ یہ رہا کہ اگر کوئی واقعی یہ مشورہ دے بیٹھے کہ یہ اچھی نثر نہیں، لہذا ناقابلِ اشاعت ہے توکیا ہوگا؟

اپنے اس مقدمے کی ایف آئی آر ’متاعِ شامِ سفر‘ کی صورت میں قارئین کے کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے، یاکم از کم افسوس نہیں ہوتا۔ محسن نقوی تو اپنا متاعِ شامِ سفر بستیوں چھوڑ آئے تھے، ہمار مقدر کہ ہم ابھی تک ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ چاہیں بھی تو جان چھڑانی مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتی ہے۔

ع گر قبول افتد، زہے عزّو شرف۔  اور اگر نہ بھی قبول افتد پھر بھی عزّوشرف،کیونکہ میں تو محض

؎دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “Mata e Shaam e Safar متاع شام سفر”

Your email address will not be published. Required fields are marked *